Brands
Discover
Events
Newsletter
More

Follow Us

twitterfacebookinstagramyoutube
Youtstory

Brands

Resources

Stories

General

In-Depth

Announcement

Reports

News

Funding

Startup Sectors

Women in tech

Sportstech

Agritech

E-Commerce

Education

Lifestyle

Entertainment

Art & Culture

Travel & Leisure

Curtain Raiser

Wine and Food

YSTV

ADVERTISEMENT
Advertise with us

وکالت چھوڑ کر وبھا نے قائم کیا نیا ادارہ 'لاء میاٹڑ'

وکالت چھوڑ کر وبھا نے قائم کیا نیا ادارہ 'لاء میاٹڑ'

Thursday August 18, 2016 , 10 min Read

آج کے مثابقتی دور میں پہلے امتحانات کا دباؤ، پھراگلے کورس میں داخلے کے عمل کے لئے بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔ آخر میں من پسند کورس اور کالج میں داخلہ ملنا آسان نہیں ہوتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کرنے حاصل کرنیا ایک صبر آزما اور خوب دوڑ دھوپ کا کام ہے، لیکن ملازمت ملنے کے بعد جس شعبے میں آپ نے تعلیم حاصل کی ہے، اس شعبے کو چھوڑ کر کچھ اورکام کرنے خیال سب کو ٹھیک نہیں لگتا۔ پھر بھی کچھ لوگ اس الگ راستے پر نکل ہی جاتے ہیں۔ ایسی یہ کہانی ہے ایک وکیل کی، جو نوکری چھوڑکر قانون کی تعلیم میں نیاپن لانے والا ایک ادارہ قائم کیا اور جدت پسندی کی ایک مثآل قائم کی۔

وکیل سے کاروباری بننے والی وبھا مانے کے خاندان میں زیادہ تر یا تو سیاہ کپڑے پہنتے تھے یا پھر خاکی۔ اس کی وجہ تھی کہ ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ وکیل تھے یا پولیس کے محکمہ میں تھے۔ بچپن سے ہی قانون اور نظم و نسق ان کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے والد کی متاثر تھیں، کیونکہ اکثر ان کے والد اپنی وردی میں رہتے تھے۔ وہ انڈین پولیس سروس کے لئے کام کرتے تھے اور کئی بار وبھا کو آفس جانے سے پہلے اسکول چھوڑتے تھے۔ 33 سال کی وبھا بتاتی ہیں،"ان کے آفس کی ڈیسک کے پیچھے بہت بڑا سا پولیس کا لوگو تھا۔ جس میں تحفظ کا اشارہ کرتا ہوا ایک ہاتھ تھا جو ایک ستارے کے اندر بنے گولے میں تھا۔ اس لوگو میں سنسکرت میں 'سدركشنائے كھلنگرهنائے' لکھا ہوتا تھا۔ جس کا مطلب تھا اچھے کی حفاظت اور برائی کو تباہ کرنا۔ لیکن وبھا نے اپنا کیریئر پولیس کی بجائے قانون کے شعبے کیا۔ وہ بتاتی ہیں، "دوست اور واقفکار اکثر کیریئر کی رہنمائی کے لئے میرے والد سے مشورہ لیتے تھے۔ ایک بار میں نے بھی ان سے پوچھا کہ وہ کسی کو پولس فورس میں آنے کو کیوں نہیں کہتے؟ تو انہوں نے بتایا کہ پولیس فورس قانون سے بندھا ہوتا ہے اور وکیل جانتے ہیں کہ قانون کی حدود کیا ہوتی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ قوانین کی کس طرح تشریح کی جاتی ہے اور وہ بھی دونوں طرف سے۔ "

اپنے والد کے اس نظریے سے ان کا جھکاؤ قانون کی طرف ہوا اس طرح انہوں نے پایا کہ یہ کیرئر متاثر کن، کارگر، قابل اور مضبوط بنا سکتا ہے۔ اس طرح وہ 14 سال کی عمر سے ہی وکیل بننے کے خواب دیکھنے لگی تھیں۔ تاہم ان کے ارد گرد موجود لوگ ان کی اس پسند سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وجہ تھی کہ ان کے قلم میں دم تھا، وہ رقص اور اداکاری کافی اچھا کرتی تھی۔ اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ فن کے میدان میں نام کما سکتی ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ لوگ غلط تھے کیونکہ آج وبھا بہت مختلف جگہوں پر مختلف فورموں میں قانون کے طالب علموں کو مختلف مسائل پر خطاب کرتی ہیں اور ان کی تربیت کے کام انجام دیتی ہیں۔

وبھا جب پونے کے میں Symbiosis- سمبیواسیس لاء اسکول سے قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو اس وقت وہ دوسرے طالب علموں کی طرح اوسط طالب علم تھیں۔ وہ سوچتی تھی کہ وہ پانچ سال بعد بامبے ہائی کورٹ میں پریکٹس کریں گی۔ تاہم کالج کے دنوں میں وہ کافی لو پروفائل رہتی تھیں اور ان کے بہت کم دوست تھے۔ وہ کورٹ کی بحث اور مباحثے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتی تھی۔ اس طرح پانچ سال کی تعلیم کے بعد جہاں وبھا کے دوست بڑی لاء فرم کے ساتھ جڑنے کی کوشش کرتے تھے، وہیں وبھا نے لوئر کورٹ کا رخ کیا۔ کیونکہ ان کے خاندان میں موجود سینئر وکیل مانتے تھے کہ ان کو زمینی حالات کا پتہ ہونا چاہئے۔ اس لئے ان کو اپنے کام کا آغاز ضلع عدالت سے کرنا چاہئے

وبھا کے کیریئر کا اہم موڑ نزدیک ہی تھا۔ وہ پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ "نچلی عدالتوں میں کام کرنا کافی اداسی والا تھا۔ اس وجہ سے میں ٹوٹ جاتی تھی اور مجھے ایسی کوئی چیز نہیں دکھائی دیتی جو میری توانائی کو بڑھانے میں مدد کرتی۔ میں اس وقت مکمل طور پر مایوسی کے دور سے گزر رہی تھی۔ "

وبھا نے بامبے ہائی کورٹ میں کام کرنے کے دوران کافی محنت کی، لیکن تعزیرات ہند، زمین کے قوانین اور بجلی سے منسلک قوانین کو سمجھنے کے لئے ان کو کافی جدوجہد کرنا پڑا اور آخر میں انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ عدالت ان کے لئے صحیح جگہ نہیں ہے۔ خاندان کو ان کے اس فیصلے سے حیرانی محسوس ہوئی۔ بڑا سوال یہ تھا کہ "اب تم کیا کرو گی؟" اور "اگر یہ نہیں کرنا تھا تو قانون کی تعلیم کیوں حاصل کی؟"

اس طرح کے سوال ان سے اکثر پوچھے جانے لگے۔ تاہم ان کے ارد گرد کے لوگ یہ سمجھنے کو تیار نہیں تھے کہ وکیل کوئی دوسرا کام بھی کر سکتا ہے۔ تب وبھا نے اپنے لئے تھوڑا وقت لیا اور یہ سوچنے لگی وہ اب کیا کرنا چاہتی ہیں۔ وبھا کے مطابق، "مجھے اپنے اپنے لئے کافی دکھ ہوتا تھا، لیکن میں ایک بات پر یقین کرتی تھی کہ قانون کی پڑھائی کرنا میری بھول نہیں تھی، کیونکہ میرا پکا یقین تھا کہ میں اس میں اپنا کیریئر بنا سکتی ہوں۔ تب میں نے سوچا کہ اس ڈگری کے ساتھ کچھ اور بھی ہونا چاہئے۔ "

اس طرح وبھا نے برطانیہ میں مختلف یونیورسٹیوں میں درخواست دی اور آخر میں انہوں اسکاٹ لینڈ کے گلاسگو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دراصل وہ اسکاٹ لینڈ کی قدرتی نظاروں سے کافی متاثر تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب وہ خود کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ وبھا کو محسوس ہوا کہ تعلیم کے تئیں ان کا جھکاؤ تو ہے، لیکن قانون کا متن پڑھانا کافی بورنگ ہوتا ہے۔

جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکاٹلینڈ گئیں تو وہاں ایجوکیشن لون چکانے کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ وبھا جانتی تھیں کہ قانون جیسے موضوع کو پڑھانا بھی کافی بورنگ کام ہے۔ باوجود اس کے انہوں نے اپنے تمام طرح کے خدشات کو ایک طرف رکھا اور ان چیزوں پر توجہ دینے لگی جو ان کے ہاتھ میں تھیں۔ وہ ایک کال سینٹر میں کام کرنے لگیں تاکہ وہ اپنا ایجوکیشن لون کو چکا سکیں۔ تاہم اس کام کے لئے ان کو اچھے پیسے مل گئے، لیکن اس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم کے لئے وقت نہیں نکال پا رہی تھی، اس لئے انہوں نے کچھ دن بعد وہ نوکری چھوڑ دی۔ اس کے بعد وہ یونیورسٹی کے کیفے میں کام کرنے لگیں۔ اس طرح ان کو اضافی آمدنی کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مفت ملتا تھا۔ وہ اپنے لئے کچھ پیسے بچانے میں بھی کامیاب ہو سکیں۔ وبھا اب تعلیم میں اوسط طالب علم نہیں رہی تھیں وہ ہندوستانی کمیونٹی کے ثقافتی پروگراموں میں حصہ بھی لے لگیں۔

جب کالج کے کانووکیشن کے دن نزدیک تھے تو وبھا نے ہندوستان میں ملازمتوں کے لئے درخواست دینی شروع کر دی۔ وہ جانتی تھی کہ ایجوکیشن لون ادا کرنے کے لیے صرف لا اسکول میں نوکری کرنا ہی کافی نہیں ہوگا۔ تبھی ان کو 'رنمیكر' سے ملازمت کی تجویز ملی۔ اس لاء فرم کو بنگلور میں واقع نیشنل لاء اسکول کے چار سابق نوجوان طالب علموں نے شروع کیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے تھوڑے وقت کے لیے ریاست مہاراشٹرکے برقی کمیشن کے ساتھ کام کیا، لیکن سرکاری کام کے انداز سے وہ متاثر نہیں ہوئی۔ ان کے کیریئر میں نیا موڑ اس وقت آیا جب سال 2009 میں وہ او پی جندل گلوبل یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر مقرر ہو گئی۔

سال 2011 میں وبھا کی شادی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے ساتھ معاہدے کے طور پر کام کرنے لگیں۔ اس طرح ان کو ادارے کے لئے پہلے ایل ایل ایم کورس تیار کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ سال بھر کے لئے مےیٹرنٹيی چھٹی پر چلی گئیں اور اس موقع کا استعمال انہوں نے مختلف ملازمتوں کے دوران ملے تجربات کی بنیادوں پر تحقیق کے طورلئےاستعمال کیا۔ انہوں نے جون، 2014 میں ٹرکی میں ہوئے جنڈراینڈ لاء كانفرنس میں میں کچھ مسائل کا سامنا کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے نئے طریقے سے اپنے کام کاج کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ممبئی کے مختلف لاء اسکول میں درخواست داخل کرنے ارادہ کرنے لگیں۔ تاہم ان کے شوہر چاہتے تھے کہ وہ کچھ کاروبار پر توجہ دیں، لیکن وبھا ایسا نہیں سوچ رہی تھی۔ وبھا کا کہنا ہے، "وہ ایک کاروباری ہیں اس لئے ان کے دماغ میں ایسے خیالات آنا فطری ہے۔ وہیں میں ایک سخت گیر سروس کلاس انسان ہوں۔ میرے لئے روز آفس جانا، کام کرنا اور بدلے میں تنخواہ ملنا کافی تھا۔ "

وبھا نے دوستوں، ساتھیوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر بہت یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ کافی بات چیت کے بعد فروری، 2015 میں 'لا میاٹر' فرم کا آغاز کیا۔ 'لاء میاٹر' کے آغاز میں ابتدائی سرمایہ ان خسر نے لگایا۔ اس کے بعد وبھا کی یہ فرم لاء اسکولوں، یونیورسٹیوں، مینجمنٹ اسکولوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کے لئے کورس بنانے کا کام کرنے لگی۔ اس کے علاوہ ان کی فرم قانون کے طالب علموں کے لئے مختلف سیمینار، ورکشاپ اور ٹریننگ سیشن کا انعقاد کرنے لگی۔ آج ان کی ٹیم میں 10 رکن ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وكلاء ہیں۔ 'لاء میاٹر'اہم سرکاری منصوبوں جیسے مہاراشٹر میں بیف بین اور ممبئی میں موٹر لانچ مالکان کے پالیسی ساز مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فرم دہلی، ہریانہ، پونے، ستارا اور بنگلور جیسے شہروں میں تربیت اور مواد کی تیاری کا کام بھی کر رہی ہے۔ تاہم یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔

شروع شروع میں وبھا کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ان کو مختلف کالج اور یونیورسٹیوں کو یہ سمجھانے میں کافی دقت آئی کہ ان کو اپنے نصاب میں انوووٹو لاء کورس کو شامل کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ خواتین کاروباری ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ لوگ حوصلہ افزاء برتاؤ نہیں کرتے تھے۔ وبھا کے لئے یہ نیا چیلنج تھا کیونکہ وکیل ہونے کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی اس طرح کے تعصب کو محسوس نہیں کیا تھا۔ وبھا کا کہنا ہے، "میں لوگوں کے ساتھ سختی سے باتیں کرتی تھی، لانمبے قد کی تھی اور ساڑی پہنتی تھی۔ یہ بالکل مضحکہ خیز لگ سکتا ہے، لیکن بہت سے خاتون وکیل دوست اور ساتھیوں کو بھی اسی طرح کا تجربہ ہے اورساڑی کو ہندوستانی ثقافت میں قانونی تعلیم کے لئے صحیح مانا جاتا تھا۔ "

اس وقت 'لاء میاٹر' نوئیڈا کے میں Symbiosis لاء اسکول، پونے کا بھارتیہ ودیاپیٹھ، ستارا کا اسماعیل صاحب ملا لاء کالج، دہلی میں لاء اینڈ مینججمنٹ اکیڈمی کے علاوہ دہلی، پونے اور بنگلور میں یہ کام کر رہے ہیں۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں وبھا کا کہنا ہے کہ وہ لاء میكر کے ذریعے مختلف موضوعات پر کورس سے منسلک ڈیٹا بینک تیار کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ٹیم اپنی خدمات سے منسلک آن لائن پلیٹ فارم کو تیار کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ان کی کوشش ایسی تنظیموں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی ہے جو زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں، تاکہ یہ ان تمام طرح کی قانونی مدد فراہم کر سکیں۔ ان سب کے درمیان وہ کس طرح کامیابی سے تال میل بیٹھا لیتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے، "میں اس بات کو لے کر خوش ہوں کہ ہمارا کافی بڑا مشترکہ خاندان ہے جو ہر کام میں میری مدد کرتا ہے۔ اس وجہ سے میں ہر کام جلد ختم کرنے میں کامیاب رہتی ہوں۔ ساتھ ہی ہفتے میں ایک دن چھٹی ضرور لیتی ہوں۔ "

تحریر - پرتیکشا نائک

ترجمہ -ایف ایم سلیم