معذوری کو ہرا کر نسیمہ ہرزق نے بسائی نئی دنیا، جہاں جسمانی معذوری اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے
وہ موت کے دروازے سے واپس لوٹ آئی تھیں، کبھی یہ دروازہ انہوں نے خود کھٹکھٹایا تھا، ان دنوں جب انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے خاندان پر بوجھ بنی ہوئی ہیں، موت ہی ایک آخری راستہ نظر آتا تھا، لیکن آج وہی خاتون دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کے جزبے سے بھرپور نہ صرف اپنی طرح کے ہزاروں افراد بلکہ اپنے شہر، ریاست، ملک اور دنیا کے لئے ہمت، بہادری، ایثارو قربانی کی بہترین مثال بنی ہوئی ہیں۔ ذکر محترمہ نسیمہ ہرزق کا ہے، جو خود کبھی معذوری کی وجہ سے چوبیسوں گھنٹے بستر پر پڑے رہ کر موت کی دعائیں مانگنے پر مجبور تھیں، آج دنیا بھر کے معذروں کے لئے تحریک و ترغیب کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
نسیمہ ہرزق نے اپنے کام سے کچھ ایسا مقام حاصل کیا ہے کہ آج ان کے ذکر کے بغیر کولہاپور ادھورا سا لگتا ہے۔ ان کا ادارہ ہیلپنگ ہنڈی کیاپس آج سیکڑوں معذور بچوں کا آسرا بنا ہو ہے۔ یہ ادارہ ان کو مجبور رہنے نہیں دیتا، بلکہ انہیں خودمکفی بناتا ہے۔ اپنا کام خود کرنا سکھاتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف اسکول اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹر چلاتا ہے، بلکہ ان کی زیندگی کی رفتار تیز کردی ہے۔ وہیل چیئر پر جیسے وہ دوڑتے ہیں، ان کے کام کرنے کے لئے اینٹ اور کاجو پراسیسنگ یونٹ بھی شروع کئے گئے ہیں۔
گزشتہ دنوں جب کولہاپور جانا ہوا تو محترمہ نسیمہ ہرزق سے ملاقات ہوئی۔ ان کے اور ان کے اداروں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ ان کی پیدائش 2 ستمبر 1950 کو شولاپور میں ہوئی۔ ایک خوشحال گھر میں پلی بڑھی، اسکول اور کالج میں پڑھنے کے دوران مختلف تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھکر حصہ لینے والی لڑکی نسیمہ کو اچانک ایک دن پتہ چلتا ہے کہ ان کے کمر کے نیچے کا حصہ زندگی بھر کے لئے پوری طرح سے مفلوج ہو گیا ہے۔ اس وقت ان پر کیا گزرتی ہوگی، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ نسیمہ ہرزق اسکول میں کبڑی کھیلتی تھیں اور مختلف ثقاتی پروگراموں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ ایک دن ایک ثقاتی پروگرام کے دوران اسٹیج ٹوٹ گیا اور وہ نیچے گر گئی، جب پرگرام پھر سے شروع ہوا تو ان کے پروگرام کو ملتوی کر دوسرا پروگرام شروع کیا گیا، لیکن انہوں نے زور دیا کو انہیں پھر سے موقع دیا جائے۔ اس پروگرام میں انہیں اول مقام حاصل ہوا۔ اس واقعے کے بعد انہیں پیٹھ میں کبھی کبھی درد ہونے لگتا۔ وہ پولس افسر بننا چاہتی تھیں، اس کے لئے وہ اسکول اور کالج کی سطح پر ساتھی طالبات کے ساتھ کافی متحرک ہوا کرتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کا درد بڑھتا گیا اور ایک دن ڈاکٹروں نے کہ دیا کہ وہ کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی۔
16 سال کی عمر تک وہ عام لڑکی کی طرح ہی تھیں۔ 6 بہنوں اور دو بھائیوں کے خِاندان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، لیکن نسیمہ کا درد دبدن بڑھنے لگا تھا۔ نسیمہ کو پتہ نہیں کہ وہ درد كبڑی کھیلتے ہوئے ریڑھ کو زخم ہونے سے ہوا تھا یا پھر اسٹیج سے گرنے کی وجہ سے۔ کبھی تو درد پیٹھ سے شروع ہوکر پورے بدن میں پھیل جاتا۔ انہوں ںے پری ڈگری کورس پورا کرڈگری مِیں داخلہ لے لیا تھا۔ پانچ سال تک ان کے درد کا علاج چلتا رہا۔ ڈاكٹروں نے ان کے مرض کی سنیجیدگی کو محسوس نہیں کیا- اچانک ایک دن کمر کے نیچے کا حصہ مفلوج ہو گیا۔ بلکہ پوری طرح سے ناكارہ ہو گیا۔ ایک امریکی ڈاکٹرنے ان کے خاندان کو بتایا کہ انہیں زندگی بھر وہیل چیئر پر گزارنا پڑیں گا۔
ایک دن کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے نسیمہ آپا نے بتایا کہ جب وہ دواخانے میں تھیں تو چوٹيوں سے بدن بھر گیا تھا، چوں کہ اس حصے میں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی، اس لئے انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ چوںٹیاں ان کے بدن کو کاٹ رہی ہیں۔ والد کو ان کی اس حالت کا بہت بڑا صدمہ ہوا اور وہ اسی تکلیف کے ساتھ بہت جلد چل بسے۔ بڑی بہن نے کالج چھوڑ دیا اور گھر چلانے کے لئے والد کی محکمے میں ملازمت قبول کر لی۔
یہی وہ دور تھا، جب 24 گھنٹے بستر پر پڑے پڑے نسیمہ کو پورے خاندان پر بوجھ بننے کا احساس ہوتا۔ کتابیں، ریڈیو، کسی میں دل نہیں لگتا تھا وہ اس زندگی کو ختم کرنا چاہتی تھیں، خودکشی کرنے کی بھی طاقت ان میں نہیں تھی۔ گھر والے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ اپنی بہنوں سے کہتیں کہ ۔۔۔ سچا پیار ہو تو زندگی کو ختم کرنے میں میری مدد کریں۔ لیکن بہونوں نے ان کا خِیال رکھنے میں کبھِی کوئی کثر باقی نہیں رکھی۔
وہ جب مسلسل روتی رہیں تھیں تو والد نے کہا تھا۔ 'رونے سے اگر مشكلیں ختم ہوتیں تو سارا گھر مل کر رولیتا۔'
جب اسپال سے گھر آئیں تو کِئی لوگوں نے معذوروں کے مرکز جانے کا مشورہ دیا، لیکن خاندان چھوڑنے کے لئے راضی نہیں ہوا اور ایک دن انہیں حالات میں ان کی مالاقات اپنی ہی طرح کے ایک شخص بابو کاکا سے ہوئی۔ نسیمہ بتاتی ہیں؛
'اب تک بہت سے لوگوں نے مجھے نصیحتیں کی تھیں لیکن وہ سب میری طرح نہیں تھے، لیکن بابو کاکا میری طرح تھے 'پیارا فزک'۔ بالکل میری جیسی حالت تھی ان کی۔ بینگلور میں رہتے تھے۔ بستر پر لیٹے رہ کر سانس لینا انہیں گوارا نہیں تھا۔ کچھ ساتھیوں کو ساتھ لے کر ایک ادارہ شروع کیا تھا۔ وہ کافی بڑا کام کر رہے تھے ۔ ان کا بھی کمر سے نیچے کا حصہ مفلوج تھا، لیکن وہ خود کار چلاتے ہوئے آئے تھے۔ ہنستے ہوئے آئے تھے۔ میں سوچنے لگی کہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا آدمی اس طرح ہنس کیسے سکتا ہے۔ ہنسا کیسے سکتا ہے۔'
بابو کاکا نے نسیمہ کو سکھایا کہ وہیل چیئر سے کیسے جیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ بابو کاکا نے نسیمہ سے کہا کہ وہ اپنی گریجویشن کی ادھوری تعلیم مکمل کرلیں۔ انہوں نے خواہش کی کہ نسیمہ کولہاپور میں رہ کر دوسرے لوگوں کی زندگی بنانے کے لئے کام کریں۔ انہوں نے کہا تھا۔ بابو کاکا کا گزرے چالیس سال ہو چکے ہیں، لیکن ان کے الفاظ نسیمہ آپا کا اب تک یاد ہیں۔
'آنکھ کھول کر دیکھو کچھ لوگ بہت بری حالت میں ہیں۔ ان کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔'
ان سے ملنے کےبعد نسیمہ آپا کہ زندگی میں بڑی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ گریجویشن مکمل ہوا تو وہ بابو کاکا سے ملنے بینگلور چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے دوسروں کے لئے جینا سکیھا۔ انہیں اپنی زندگی کا مقصد مل گیا۔ بینگلور کے سفرمیں ان کے بھائی عزیز اور بہن راحیلا ساتھ تھے۔ انہوں نے وہاں هینڈی كیپ اسپورٹس میں حصہ لیا۔ کئی پرائز جیتے۔ بشمول ٹیبل ٹینيس اور وہیل چیئر ریس پانچ میڈل ملے۔
ممبئی اسپورٹس مقابلوں کے لئے ان کا انتخاب ہوا اور یہیں سے وہ لندن گئیں۔ یہاں 48 ممالک کے معذورافراد کھیلوں میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں جوش تھا۔ نسیمہ نے لندن جانے سے پہلے ہی معذوروں کے لئے اوكیشنل ٹریننگ شروع کی تھی۔ وہ دیكھتی تھیں کہ معذورں کی آنکھوں میں بھی معذوری کا احساس ہے۔ جبکہ لندن میں انہیں الگ ہی تجربہ ملا٫ وہاں انہوں نے پایا کہ معذوروں کی آنکھوں سے معذوری کا احساس غائب ہے اوران میں بلا کا جوش ہے۔ وہ کہتی ہیں،
'میرا کھیل ان کے سامنے کہیں بھی نہیں ٹكتا تھا۔ وہیل چیر دوڑ کے دوران ہی میری چیئر کا ایک پہیہ ٹوٹ گیا، حالانکہ میں اس ریس میں کوئی میڈل جیت نہیں پائی، لیکن جیسے ہی میری کی وہیل چیر ٹوٹی اورمیں گر پڑی، ایک خاتون نے مجھے وہاں کی وہیل چیئر دی جو کافی بہترین تھی، اس پر بیٹھ کر لگتا تھا کہ میں اپاہج نہیں ہوں، یہی میرے پاؤں ہیں۔ اسی چیئر نے مجھ میں معذروں کو روزی روٹی کمانے انہیں خود مکتفی بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے کا خیال دیا۔'
1976 میں بابو کاکا چل بسے۔ نسیمہ آپا نے بابو کاکا کے خواب کو پورا کرنے کے لئے معذورں کے لئے اسی سال هینڈی كیپ اسپورٹس کا انعقاد کیا۔ نیشنل اور انٹر نیشنل کھلاڑی یہاں آئَے تھے۔ ایک لڑکے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ہاتھ پاؤں نہیں تھے؛ لیکن بہت تیز تیراک تھا۔اس مقابلے کی وجہ سے وہ ایک گاوں سے نکل کر بیرون ملک تک پہنچا اور بعد میں اس کو ضلع پریشد میں نوکری مل گئی۔
نسیمہ آپا نے ایکسائز محکمے میں ملازمت شروع کی تھی۔ پھر انہوں نے 7 لوگوں کے ساتھ مل کر ہیلپرس آف ہینڈكیپ ادارے کا قيام کیا۔ وہ اپنی ملازمت سے حاصل ہونے والی ساری آمدنی اپنے ادارے کو لگا دیتی۔ ان کا اپنا خرچ اب بھی ان کے بھائی بہن چلا رہے تھے۔دوائی بھائی لے آتے تھے۔ گھر کا خرچ بھائی بہن مل کر چلاتے تھے۔ پھر ایک دن پولیس ڈپارٹمنٹ نے انہیں اپنے ادارے کے آگے لے جانے اور معذور افراد کو اپنی محنت سے کمانے میں مدد کی۔ انہوں نے معذوروں کے لئے مصنوعی پیر بنانے شروع کئے۔ اسے فروخت کرنے میں پولس ان کی مدد کرتی تھی۔اس کے لئے نسیمہ آپا کے بھائی نے اپنا فلیاٹ دے دیا۔
کام جب شروع ہوا تو بڑھنے ہی لگا۔ ان کے ادارے نے جب دیکھا کہ ایل معذور لڑکے کا داخلہ سرکاری اسکول میں رجکٹ کیا گیا ہے تو پھر ان کے دل میں اپنا اسکول کھولنے کا خیال آیا اور 10 سال تک کوشش کے بعد 2 ایکڑ زمین انہیں ملی، جہاں ان کا ہاسٹل اور اسکول ہے۔ان کے اسکول میں عام بچےاور مل کر پڑھتے ہیں، ایک طرح سے یہ ایک انوکھی کوشش ہے، جہاں ایک دوسرے کی جگہ کو سماجی طور پر سمجھا جائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ نارمل بچوں کو ساتھ کس طرح جینا ہے۔ بھائی بہنوں جیسے رہنا ہے۔ ٹيچرس کو بھی ٹرینگ دی جاتی ہے کہ ایسے بچوں کے ساتھ کس طرح پیش آئے۔ نسیمہ آپا نے دو قدم آگے بڑَھتے ہوئے کئی معذور افراد کی شادیاں کروائیں۔ ان میں اعتماد کی ایک دنیا بسائی۔
ان کے ادارے میں معذوری کو ہرانے کے سارے اننظام موجود ہیں ۔ یہاں انہں ہر چیز سکگھا ئی جاتی ہے۔ کھانا پکانا، صفائی کرنے، ہاتھ نہیں ہیں تو پاؤں سے دانت برش کرنا، لکھنا کام کرنا وغیرہ۔ملک میں آج بھی معذوروں کی فلاح و بہبود کے کوئی جامع انتاظامات نہیں ہیں۔ نہ ہی سماجی سطح پر اور نہ سرکاری سطح پر۔ بلکہ سرکاری حکام کا رویہ اس معاملے میں کافی سست ہوتا ہے۔ نسیمہ آپا نے ان حالات کے بدلنے کا اننظار نہیں کیا، بلکہ 1996 میں انہوں نے 'گھروندا' فاوںڈیشن کی شروعات کی تھی اور سن 2000 میں 'سمرتھ ودیا مندر' بنایا۔ 2001 میں 'سوپن نگری' کا قیام کر انہوں نے معذور افراد کو خود مکتفی بنانے کا ایک بڑا اہم قدم اٹھایا۔
نسیمہ آپا نے اپنی کتاب 'کرسی پہيوں والی' بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب اردو، ہندی مراٹھی، کنڑ اور دیگر زبانوں میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے دنیا کو ایک ایسی کہانی دی ہے، جس سے ہمیشہ تحریک ملتی رہےگی۔ آج ان کے کام کے لئے دنیا بھر کے انگنت ایوارڈ ان کی جھولی میں ہیں، لیکن سب سے بڑا ایورڈ ان کے اپنے وہ بچے ہیں، جنہیں معذوری کی وجہ سے اپنوں میں جگہ نہیں ملتی اور وہ دنیا کو جیتنے کے لئے نسیمہ آپا کے پاس آکر دوڑنے لگتے ہیں۔