Brands
Discover
Events
Newsletter
More

Follow Us

twitterfacebookinstagramyoutube
Youtstory

Brands

Resources

Stories

General

In-Depth

Announcement

Reports

News

Funding

Startup Sectors

Women in tech

Sportstech

Agritech

E-Commerce

Education

Lifestyle

Entertainment

Art & Culture

Travel & Leisure

Curtain Raiser

Wine and Food

YSTV

ADVERTISEMENT
Advertise with us

قبائلی علاقے میں تعلیم حاصل کرکے ہندوستانی طلباء کے انقلابی اسٹارٹپ ہیرو بنے ہرنمے مهتا

قبائلی علاقے میں تعلیم حاصل کرکے ہندوستانی طلباء کے انقلابی اسٹارٹپ ہیرو بنے ہرنمے مهتا

Saturday December 31, 2016 , 21 min Read

ہرنمے مهتا کی کامیابی کی کہانی شروع ہوتی ہے اڑیسہ ریاست كیجھر ضلع سے۔ قبائلی اکثریتی كیجھر ضلع میں ہی ہرنمے کی پیدائش ہوئی۔ لیکن، ہرنمے کا خاندان قبائلی نہیں تھا۔ ان کے والد سرکاری اسکول میں استاد تھے۔ ماں گھریلو خاتون تھیں۔ ہرنمے کی اسکول کی تعلیم مختلف سرکاری اسکولوں ہوئی۔ چونکہ باپ سرکاری استاد تھے اور اکثر ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا، ہرنمے کی پڑھائی انہی اسکولوں میں ہوئی جہاں جہاں ان کے والد نے پڑھایا۔ یہ تمام اسکول قبائلی علاقے میں تھے اور ہرنمے کی ساری تعلیم ' اوریا' زبان میں ہی ہوئی۔ ہرنمے بچپن سے ہی ذہین طالب علم تھے اور انہوں نے قبائلی علاقوں کے اوریا بولنے والے اسکولوں میں پڑھنے کے باوجود پردیش کی میرٹ لسٹ میں ٹاپ 30 میں جگہ بنا لی تھی۔ ہرنمے کا گیارہویں اور بارہویں کی تعلیم بھی ایک سرکاری کالج میں ہی ہوئی۔

image


ہرنمے شروع سے ہی اپنے استادوالد سے بہت متاثر ہیں۔ والد ایک محنتی استاد تھے۔ انہوں نے بچوں کو پڑھانے کے لئے نئے نئے طور طریقے آزمائے۔ سرکاری اسکولوں میں آلات اور سہولتوں کی عدم موجودگی کی پرواہ کیے بغیر انہوں نے قبائلی بچوں کو ان کے انوکھے انداز میں پڑھایا۔ ہرنمے کے والد نے قبائلی لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھجوانے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ ان کے والد اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ قبائلی لوگوں میں تعلیم کے تئیں بیداری آئے۔ اگر ہرنمے کے والد چاہتے تھے تو وہ بھی دوسرے اساتذہ کی طرح موجودہ ذرائع سے بچوں کو پڑھا لکھا کر اپنے گھر چلے جا سکتے تھے۔ لیکن، ہرنمے کے والد نے آسان راستہ نہیں اپنایا اور قبائلی لوگوں میں بیداری لانے کو اپنی سماجی ذمہ داری سمجھا اور اس کوبخوبی نبھایا بھی۔

اپنے والد کے کام کاج کے طریقوں کی وجہ سے، ہرنمے بچپن میں ہی جان گئے تھے کہ اگر ارادہ پکا اور نیک ہو تو مقصد کو حاصل کرنے میں ذرائع اور وسائل کی کمی آڑے نہیں آتی۔عظم اورطاقت سے سارے ذرائع-وسائل جٹا لئے جا سکتے ہیں۔ ہرنمے کو اس بات کا بھی احساس ہو گیا کہ اگر آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں اور اگر آپ کچھ نیا، منفرد اور اچھا کام کر رہے ہیں تو آپ کا نام ہوگا اور آپ کی ایک الگ پہچان بنے گی۔ والد کے 'ذرا هٹكے کام کرنے کے طریقے' سے متاثر ہرنمے کے بچپن میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بھی اپنی زندگی میں 'کچھ مختلف اور بڑا' کام کریں گے اور لوگوں کے درمیان اپنی انتہائی الگ پہچان بنائیں گے۔ ایک انتہائی خاص بات چیت کے دوران ہرنمے نے کہا، "پیروی کرنے کے لئے بچپن میں میرے سامنےزیادہ مثالی لوگ نہیں تھے۔ میں مثالی لوگوں کو ڈھونڈتا تھا، لیکن ارد گرد مجھے کوئی نہیں دکھائی دیتا تھا۔ مجھ پر میرے والد کا ہی سب سے زیادہ اثر رہا۔ جب مجھے ارد گرد کوئی بڑا مثالی شخص نہیں نظر آیا تب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے خود ایک مثالی بنانا چاہئے۔ ایک ایسا مثالی جسے اڑیسہ کے قبائلی لوگ ہی نہیں بلکہ ملک کے لوگ بھی اپنے لئے مثال بنائیں۔ "

image


چونکہ والد پڑھے لکھے تھے، ملک اور دنیا میں ہو رہی بڑی بڑی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہتے تھے انہوں نے ہرنمے کے مستقبل کو لے کر بھی منصوبہ بنا یا تھا۔ والد نے ہرنمے کو بچپن میں ہی آئی آئی ٹی) کے بارے میں بتایا تھا۔ ہرنمے نے ٹھان لی تھی کہ وہ آئی آئی ٹی میں داخلہ حاصل کرے گا۔ آئی آئی ٹی میں داخلے کے لئے ہرنمے نے زبردست طریقے سے تیاری بھی کی۔ آئی آئی ٹی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) کے داخلہ امتحان میں کارکردگی کی بنیاد پر ہرنمے کو این آئی ٹی میں داخلے کی اہلیت حاصل ہوئی۔ ویسے تو ملک بھر میں بہت سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہیں لیکن ہرنمے نے اپنی تعلیم کے لئے گجرات کی این آئی ٹی کے لیے منتخب کیا۔ گاندھی نگر میں ہوئی ایک انتہائی خاص ملاقات میں ہرنمے نے بتایا کہ صورت شہر کی این آئی ٹی کو منتخب کرنے کے پیچھے ایک خاص مقصد تھا۔ صورت شہر مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی اور گجرات کے بڑے شہر احمد آباد کے درمیان میں پڑتا ہے۔ ممبئی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) ہے جبکہ احمد آباد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) ہے۔ ہرنمے کو لگا کہ وہ وقت / چھٹی ملنے پر ملک کے ان دونوں بڑے تعلیمی اداروں میں جاکر اہم جانکاریاں حاصل کر سکتے ہیں۔

ہرنمے نے این آئی ٹی، سورت میں الیکٹرانکس اینڈ کمیونی کیشن کی اعلی سطحی تعلیم شروع کی۔ ہرنمے کو این آئی ٹی جیسے نامور ادارے میں جگہ تو مل گئی تھی لیکن ان کے لئے زبان کے مسئلے سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہا تھا۔ این آئی ٹی میں داخلے سے پہلے ان کی تعلیم اوریا زبان میں ہی ہوئی تھی، لیکن اب انہیں سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جانے لگا تھا۔ تعلیم کی نہیں بلکہ سارے کام کاج اور بول چال کی زبان بھی انگریزی ہو گئی تھی۔ چونکہ ہرنمے کے ارادے مضبوط تھے انہوں نے کم وقت میں ہی اس لسانی چیلنج کو بھی پار لگا دیا۔ محنت اور سخت مشق یہ انہوں نے جلد ہی انگریزی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ ہرنمے کے لئے ایک اور بڑا چیلنج تھا،شہری ماحول میں خود کو جمانا، وہ قبائلی علاقے سے آئے تھے اور شہر اور شہری عوام کی زندگی ان کے لئے بالکل نئی تھی۔ لیکن، چونکہ وہ سمجھدار تھے، ہوشیار بھی انہوں نے خود کو جلد ہی شہری ماحول کے لیے موزوں بنا لیا۔ این آئی ٹی میں تعلیم کے دوران ہرنمے کو اپنے اہم موضوعات - الیکٹرانکس اور كميونکیشنس کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملا۔ چونکہ ریاست گجرات کاروباری لوگوں کے لئے مشہور ہے ہرنمے بھی کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے۔ چھٹی والے دنوں میں ہرنمے الگ الگ جگہ جاتے اور لوگوں کے کاروبار، ان کے کام کاج-رهن سهن کے بارے میں رپورٹس حاصل کرتے۔ ہرنمے نے کہا، "این آئی ٹی میں تعلیم کے وقت ہی مجھے انٹرپرنرشپ کیڑا لگ گیا تھا۔ مجھے لگنے لگا کہ حکومت ہر ایک کو نوکری نہیں دے سکتی ہے۔ اگر لوگ صرف سرکاری ملازمتوں کے لئے پڑھائی کریں تب آگے چل کر بہت سے لوگوں کو مایوس ہونا پڑ سکتا ہے۔ مجھے لگا کہ میں اس سمت میں کچھ مختلف کام کر سکتا ہوں۔ میں نے من بنا لیا تھا کہ میں کچھ مختلف کروں گا اور انٹرپرنرشپ کے معاملے میں ہی کچھ نیا اور بڑا کرنے کی کوشش کروں گا۔

"ایک معنوں میں یہ ایک بڑا فیصلہ تھا۔ عام طور پر دیہی ماحول سے آنے والے زیادہ تر طالب علم گریجویشن کے بعد نوکری کرنے کی سوچتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا ہدف ہوتا ہے کہ ایک بڑی اور اچھی کمپنی میں تگڑی تنخواہ پر نوکری حاصل کریں۔ ویسے بھی این آئی ٹی جیسے ادارے سے گریجویشن کرنے والوں کو تگڑی رقم والی نوکری آسانی سے مل ہی جاتی ہے۔ بہت سارے طالب علم یہی مانتے ہیں کہ آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی جیسے تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کا سیدھا مطلب ہے تگڑی رقم والی نوکری پکی کر لینا۔ اسی سوچ سےکئی طالب علم آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی کی داخلہ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ لیکن، ہرنمے کی سوچ دوسری سے کافی جدا تھی۔ انہوں نے ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ لیا۔

image


 خود کا روزگار / کاروبار کرنے سے بھی آگے کی سوچی تھی ہرنمے نے۔ ہرنمے اس سوچ میں ڈوب گئے کہ ملک میں تجارت کو فروغ کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ ایسا کیا کیا جا سکتا ہے جس سے زیادہ سے زیادہ نوجوان تجارت و صنعت کی طرف متوجہ ہوں؟ کیا کرنے پر لوگوں کی سوچ بدلے گی اور وہ ملازمتوں کی تلاش کرنے کی بجائے خود دوسروں کو روزگار دینے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ انہی سوالوں کی تلاش میں ڈوبے ہرنمے کو مشیر اور رہنما کے طور پر ملے پروفیسر انیل گپتا۔ آئی آئی ایم میں پروفیسر کے طور پر کام کر رہے معروف عالم اور سائنسی انیل گپتا کی سوچ، ان کی علمی مہارت اور ان کے نقطہ نظر سے ہرنمے بہت متاثر ہوئے۔ انل گپتا سوسائٹی فار ریسرچ اینڈ انشیٹیوز فار سسٹینیبل ٹیکنالوجیز اینڈ انسٹيٹيوشنس سے منسلک ہوئے تھے۔ ہرنمے بھی اس ادارے سے جڑ گئے۔

'کچھ بھی نیا کرنے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ نیا کرنے کی چاہ رکھنے والوں کو پہلے سے کئے گئے کاموں اور کوششوں کا علم ہو۔ یعنی بات بالکل صاف ہے اگر آپ کو پرانا معلوم نہیں ہے تو آپ کسی بھی چیز کو نیا سمجھ کر سکتے ہیں اور جس چیز کو آپ نئے مان رہے ہیں وہ حقیقت میں پرانی ہو سکتی ہے۔ ' اسی حقیقت کودھیان میں رکھتے ہوئے ہرنمے نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ہوسٹل کے ایک کمرے سے 'ٹیكپيڈيا' کا آغاز کیا۔ دراصل، 'ٹیكپيڈيا' ایک ویب پورٹل ہے۔ ہرنمے اور ان کے6-7 ساتھیوں نے مل کرملک کے قریب 1000 انجینئرنگ کالجوں اور 30 یونیورسٹیوں کے تحقیقی مظامین اور تحقیقی مواد کو اكٹھا کیا۔ سارے تحقیق-اس کے بعد انہیں 'ٹیكپيڈيا' نامی پورٹل کے ذریعے ایک پلیٹ فارم پر لایا گیا۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور کسی نے اس سے پہلے ایسا بڑا کام کیا بھی نہیں تھا۔

لیکن، ہرنمے اور ان کے ساتھیوں سے مل کر صرف 150 دنوں میں اس کام کو پورا کر ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔ بھارت میں یہ پہلی بار تھا جب انجینئرنگ کے میدان میں طالب علموں کےانوویشن، تحقیق اور جدت کو ایک ہی جگہ پر دستیاب کیا گیا تھا۔ انجینئرنگ کے لاکھو طالب علم اس سے مستفید ہونے لگے۔

image


اس طرح کے فورم / پورٹل کی عدم موجودگی میں کئی جگہ ایک ہی موضوع پر بہت سے لوگ تحقیق کر رہے تھے۔ یونیورسٹیوں کے درمیان رابطوں کی کمی تھی۔ اتنا ہی نہیں رسرچ اسکالر اور ان کی رہنماءیہ جانتے ہی نہیں تھے کہ تحقیق کے لئے جو موضوع انہوں نے منتخب کیا ہے اس پر ملک میں کہیں اور تحقیق ہوئی بھی ہے یا نہیں۔

'ٹیكپيڈيا' کی وجہ سے یہ جاننا آسان ہو گیا ۔اہم بات یہ بھی تھی کہ 'ٹیكپيڈيا' سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ اہم معلومات کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ ایک لحاظ سے 'ٹیکپيڈيا' سائنس ٹیکنالوجی سے منسلک معلومات اور علم کا خزانہ ہے۔ اور یہی وجہ بھی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے 'ٹیكپيڈيا' کی مقبولیت دن بہ دن بڑھنے لگی۔ کالج اور یونیورسٹی سطح کے طالب علم نہ صرف ان کی تحقیق بلکہ اپنے نئے اور اعلی درجے خیالات کے علاوہ اپنے تحقیقی معلومات بھی 'ٹےیكپيڈيا' کو دینے لگے۔ 'ٹیكپيڈيا' معاشرے کو مثبت طور پر تبدیل کرنے والے خیالات، ذرائع، لوگوں کاایک منفرد اور شاندار پلیٹ فارم بن گیا۔

ملک و معاشرے کے مسائل کو حل کرنے میں فائدہ بخش ثابت ہونے والے خیالات کی رپورٹس بڑے پیمانے پر جٹائی جائیں، اس مقصد سے 'ینگ ٹیكنولجكل انوویشن اوارڈس' کا آغاز کیا گیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے دوران ملنے والے پروجیکٹ میں کئی طالب علم اکثر ایسی باتیں / چیزیں تلاش کر لیتے ہیں جو معاشرے میں موجود کسی مسئلہ کو حل کر سکتی ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی فائدہ بخش حل تلاش کرنے والے طلباء کو مناسب تعریف نہیں مل پاتی ۔ انہی نوجوانوں کی جانب سے کی گئی ایجادات اور باصلاحیت طلباء کو ترغیب دینے کے مقصد سے انوویشن اوارڈس کا آغاز کیاگیا ۔ پہلے یہ ایوارڈ ملک کے عظیم سائنسدان پروفیسر رگھوناتھ ماشیلكر کے ہاتھوں دیے جاتے تھے، لیکن ان انعامات کی مسلسل بڑھتی ہوئی اہمیت اور مقبولیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں صدر جمہوریہ کے ہاتھوں دیا جانے لگا۔ ہرنمے کے مطابق، انوویشن اوارڈس طلباءمیں جدت ترازی کے رجحان کو فروغ دینے کے لئے ہیں اور ان کا اصل مقصد عوام کی سطح پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ انوویشن اوارڈس کے لئے ہونے والے مقابلہ میں کئی مربع ہیں اور یہ مقابلہ بنیادی طور پر انجینئرنگ کی پڑھائی سے منسلک طلباء کے لئے ہے۔

'ٹیكپيڈيا' کا آغاز اور اس کی کامیابی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ 'ٹیكپيڈيا' نے ملک میں ایک نئی انقلاب کا آغاز کیا ہے۔ ملک کی چھوٹی بڑی مسائل کو حل کرنے کے لئے الگ الگ جگہ چھوٹے بڑے استعمال ہونے لگے ہیں۔ کامیاب استعمال کو ملک بھر میں تسلیم ملنے لگی ہے۔ کامیاب ایجادكو، محققین، سائنسدانوں، کارباریوں اور باصلاحیت طلباء کو احترام ملنے لگا ہے۔ لوگوں کی سوچ بدلی ہے، نظریہ بدلا ہے۔ ملک بھر میں تحقیق اور تحقیق کرنے کا طور طریقق بدلا ہے۔

قبائلی علاقے میں پلے بڑھے ایک نوجوان نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کو 'ٹےكپيڈيا' جیسے علم کا خزانہ اور خیالات کے تبادلے کا پلیٹ فارم دیا، وہ آج لوگوں کے سامنے ایک مثال بن کر کھڑا ہے۔ 'ٹےكپيڈيا' کی کامیابی میں ہرنمے کی شراکت یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر آپ میں کچھ نیا، بڑا اور معاشرے کے لئے اچھا کرنا کا ذجبا ہے اور آپ عزم کے ساتھ محنت کرتے ہیں تو راہ میں حائل رکاوٹیں اپنے آپ دور ہوتی جاتی ہیں اور آپ کو کامیاب ہوتے ہیں۔ 'ذرا هٹكے کام کرنے کا طریقہ' جو اپنے باپ سے سیکھا تھا اسے اجماكر ہرنمے نے کامیابی کی نئی اور بے مثال کہانی لکھی۔ 'ٹےكپيڈيا' کی کامیابی نے ہرنمے کی زندگی میں بھی نئے جوش کے مواصلات کیا۔ ہرنمے نے نئے جوش کے ساتھ نئے کام کرنے کی ذمہ داری لی۔ ہرنمے نے ملک کی الگ الگ یونیورسٹیوں میں تحقیق کو ملک کے مسائل کا حل نکالنے کے عمل سے براہ راست شامل کرنے کی پہل شروع کی۔ اسی خیال کو لے کر سال 2010 میں انہوں نے تقریبا 200 مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے رابطہ کیا، لیکن کچھ وقت پہلے ہی کالج سے نکلے اس نوجوان کو زیادہ مدد نہیں ملی۔ہیرے کی چمک زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتی، گجرات ٹیكنولجكل یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر اکشے اگروال نے ہرنمے كے 'ايڈيا' کو سمجھا اور اسے سنجیدگی سے لیا۔ ڈاکٹر اکشے اگروال نے ہرنمے کو گجرات ٹیكنولجكل یونیورسٹی میں اپنا 'تجربہ' کرنے کی اجازت دے دی لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ شرط تھی 'ٹیكپيڈيا' یا پھر ہرنمے اور ان کی ٹیم کو یونیورسٹی کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مالی مدد نہیں دی جائے گی۔ لیکن، تجربہ کرنے، یونیورسٹی کے وسائل کا استعمال کرنے کی آزادی تھی۔

ہرنمے نے گجرات ٹیكنولجكل یونیورسٹی میں اپنا 'تجربہ' شروع کیا۔ ان کے تجربہ کے تحت ہرنمے نے یونیورسٹی کے 5000 انجینئرنگ طلباء سے گجرات کے 6000 مختصر صنعتوں کے مسائل کا مطالعہ کروایا۔ مسائل کو مناسب طریقے سے جاننے سمجھنے کے بعد انہیں دور یا کم کرنے کے سلسلے میں اقدامات، مشورے اور ايڈيا پر بھی بحث کروائی گئی۔ اس قواعد سے 6000 میں سے 1900 صنعتوں کو فائدہ ہوا۔ مختلف صنعتوں کی الگ الگ مسئلہ تھا۔ کچھ صنعتوں کی مسئلہ ایک جیسی بھی تھی۔ لیکن، انجینئرنگ کے طلباء نے نہ صرف صنعتوں کی ترقی میں آ رہی مسائل کا پتہ لگایا بلکہ ان کے تشخیص کے اقدامات بھی تلاش کریں۔ اس اقدامات کو عمل میں لانے کی وجہ سے 1900 صنعتوں کو سالانہ 1 ملین سے زیادہ کا فائدہ ہوا۔ سب سے اہم بات یہ رہی کہ ہرنمے كے کوشش / استعمال کی وجہ سے ایک سال میں مختلف مختصر صنعتوں کو قریب 19 سے 20 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ یعنی استعمال کامیاب رہا۔ ہرنمے نے اپنے اس کے استعمال کے ذریعہ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق اور تحقیق کو محض ایک عمل نہ رکھتے ہوئے اسے لوگوں / معاشرے / صنعت کے مسائل کا حل نکالنے کے ایک ذریعہ بنا دیا۔ گجرات ٹےكنولجكل یونیورسٹی میں یہ استعمال اب بھی جاری ہے۔ لیکن، ہرنمے نے اپنے اس کامیاب استعمال سے پیدا ہوئے پھورملے / منتر کو ملک کے الگ الگ یونیورسٹیوں اور الگ الگ ریاستوں کے کالجوں میں بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ کئی ریاستی حکومتیں ہرنمے اور ان کی ٹیم کی مدد لیتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں طلباء کی تحقیق اور تحقیق کے ذریعہ لوگوں کے مسائل اور دقتیں دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی ہیں۔

ٹیكپيڈيا اور ہرنمے کے اس کے استعمال سے طلبا کو بھی کافی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ معاشرے میں ریسرچ اسکالرز اور طلباء کا احترام بڑھا ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ جن طالب علموں کو کئی بار انڈسٹری میں 8-10 ہزار روپے کی نوکری کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا ہے، انہی طالب علموں سے انڈسٹری کو کروڑوں کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر ہرنمے اس بات کو زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستانی طالب علم خاص طور پر انجینئرنگ کے طالباء 'يوذلیس' نہیں ہیں بلکہ 'يوزڈ لیس' ہیں۔ انجینئرنگ کے طالباء نااہل نہیں ہیں بلکہ ان کی قابلیت کا صحیح طور پر اور مکمل استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ہاسٹل کے ایک کمرے سے شروع کیے گئے ایک کام نے جس طرح سے ایک انقلاب کو جنم دیا وہ انقلاب آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک رہنما بن کر کھڑی۔ اس انقلاب کے نقیب ہرنمے کا کہنا ہے کہ یہ تو ابھی ان کے لئے آغاز بھر ہے اور ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔

ہرنمے کہتے ہیں، "آج بھی ملک میں لاکھوں لوگوں کی ملازمتوں کی ضرورت ہے جو آنے والے وقت میں بھی بڑھتی جائے گی۔ بڑی صنعتوں بھی ایک محدود تعداد میں ہی روزگار مل ہو سکتا ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں وہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ سارے بے روزگاروں کو نوکری دے سکیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں بے روزگاری کا مسئلہ دو دور کرنے کے لئے چھوٹی صنعت ایک بہتر آپشن ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو نوکری کی بجائے خود کا وینچر شروع کرنے کی سمت میں بھی سوچنا چاہیے۔ "ہرنمے اس سوچ کو بھی بدلنا چاہتے ہیں کہ صرف عمر میں بڑے اور تجربہ کار لوگ ہی تجارتی طور پر ہوشیار ہو سکتے ہیں۔ ہرنمے کی ایک بڑی کوشش یہ بھی ہے کہ طالب علم کی زندگی میں ہی نوجوانوں کو کاروباری بننے کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انجینئرنگ طلباء کو اپنی تعلیم کے دوران ایسے پراجیکٹ لینے کے لئے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جس سے وہ کاروباری بن سکیں۔ یہ ہرنمے کی پہل کا ہی نتیجہ ہے کہ گجرات ٹیكنولجكل یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس اسٹارٹ اپ پالیسی بنائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت طالب علم کی زندگی میں ہی اسٹارٹ اپ شروع کرنے والے طلباء کو خصوصی مراعات اور چھوٹ دی جاتی ہے۔ہرنمے نے بتایا کہ اگر کوئی طالب علم اپنے کالج کے دنوں میں کسی اسٹارٹ اپ کا آغاز کرتا ہے تو اسے اپنا انجینئرنگ کورس مکمل کرنے کے چند سالوں کی مہلت دی جاتی ہے یعنی انہیں سال بھر چھٹی دے کر اسٹارٹ اپ شروع کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہرنمے نے بتایا کہ ان سے جڑے کئی طلباءنے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے اور ایک طالب علم تو ایسا ہے جس کی اسٹارٹ اپ کمپنی نے سالانہ ڈیڑھ کروڑ کا بزنس کیا ہے۔

image


ہرنمے کو اس بات کی انتہائی خوشی ہے کہ وہ ایک بہت بڑے سماجی تبدیلی کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، "وزیر اعظم نے تو اسٹارٹپ پالیسی کی بات ابھی ابھی کہی ہے، ہم نے تو کچھ سال پہلے ہی اس پالیسی کو عملی جامہ پہننا شروع کر دیا تھا۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری کوششوں کی وجہ سے 'اسٹوڈنٹ اسٹارٹپ موومنٹ' آیا اور ہم نے ہی 'اسٹوڈنٹ اسٹاٹپ ' کو ایک نام دیا۔ "

ہرنمے کے مطابق بازار میں نوجوانوں اور کالج کے طلباء کو لے کر جو بھروسے کی کمی تھی اسے دور کیا جا سکا ہے۔ عمر زیادہ معنی نہیں رکھتی مائنڈسیٹ جوان ہونا چاہئے یعنی سوچ میں نوجوانوں جیسا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ ساتھ ہی تجارت فطرت میں ہونا چاہئے۔ کاروباری معنی صرف کام کے مقام پر صنعت چلانے والے شخص سے ہی نہیں ہے، بلکہ ہر وہ شخص جو نئی سوچ رکھتا ہو، جس ایكسپیرمینٹ کرنے کی ہمت ہو، اس میں کاروبار کا رجحان ہے۔ ہرنمے یہ کہنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے کہ ہر انسان کاروباری نہیں بن سکتا ہے۔ کاروباری بننے کے لئے ایک الگ ہی جذبہ کا ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں، "ہر انسان ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر انسان کی اپنی خوبی ہوتی ہے۔ ہر ایک کی اپنی طاقت اور اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ جس کو جو کام اچھا لگتا ہے اسے وہ کام کرنا چاہئے۔ من کو پسند نہ آنے والا کام کرنے سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو سرجری کرنا پسند ہے تو اسے سرجن بننا چاہئے اگر کسی کو کرکٹ کھیلنا پسند ہے تو اسے کرکٹر بننا چاہئے۔ آپ ہی سوچیں اگر سچن تندولکر سرجن بنتے تو کیا ہوتا؟ اسٹارٹپ پریفرنس نہیں ہے، اسٹارٹپ مائنڈسیٹ ہے اور اگر آپ کے شوق سے مائنڈسیٹ میل کھاتا ہے تو کام آسان ہو جاتا ہے اور تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔

نئی نسل کے نوجوانوں کو ہرنمے مشورہ دیتے ہیں کہ زندگی میں کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر قطعی نہ کریں اور آپ کی دلچسپی اور قابلیت کو پہچان کام کریں۔ ہرنمے یہ بھی کہتے ہیں کہ کاروباری والی سوچ رکھنے والے لوگوں کی معاشرے میں بہت اہمیت ہے۔ اگرچہ کاروباری آپ انٹرپرائز یا نیا استعمال میں ناکام ہو جائیں، ان کا کوئی خیال صحیح نتائج نہ دے پائے، ان کا ابتدائیہ نقصان کر جائے، لیکن ان کا کاروباری نقطہ نظر ہمیشہ صحیح رہے گا۔ اس نوجوان سماجی سائنسدان کے مطابق، ادیمیوں کو کسی بھی نئے استعمال میں ملنے والی ناکامیوں سے بھی حوصلہ شکن ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کئی ایسی کمپنیاں بھی مارکیٹ میں ہے جو اپنے اہم عہدوں پر ایسے افراد کو مقرر کر رہی ہیں جو کسی اسٹاٹپ کے لئے کوشش کر چکے ہوں۔ دراصل کسی نئے آغاز میں ہاتھ آزمانے والے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کسی نئے خیال پر کام کیا۔ بھلے ہی وہ اپنے تجربے میں ناکام رہا ہو، لیکن اس میں لیک سے مختلف ہٹ کر سوچنے کی رجحان ہے، اس میں کاروبار کا رجحان ہے۔ بڑی کمپنیوں کو چلانے والے لوگ بھی مانتے ہیں کہ اگر کاروباری کی سوچ رکھنے والے لوگ ان کے یہاں کام کریں تو انہیں فائدہ پہنچے گا۔ بغیر کسی نئی سوچ کے، ایک ہی ڑھرے پر چلنے والے لوگ بازار میں کئی سارے مل جائیں گے، لیکن نئی سوچ سے تبدیلی لاتے ہوئے کمپنی کو نئی سمت میں لے جانے والے لوگ بہت ہی کم ملیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں اس نوجوان انقلابی نے کہا، "میں چاہتا ہوں کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء میں کم از کم ایک فیصد طالب علم کاروباری بنیں۔ ملازمت کی چاہ رکھنے والے باصلاحیت نوجوانوں میں سے اگر ایک فیصد نوجوان بھی نوکری پیشہ کی بجائے کاروباری بن جائیں تو ملک کی معیشت میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ میں مانتا ہوں کہ اسٹاٹپ کا آغاز کالج کے ساتھ ہی شروع ہو جاناچاہئے۔ تعلیم کے دوران ہی اگر نوجوان اس طرف سوچنا شروع کریں تو ملک میں نئی صنعتی انقلاب کے آ سکتی ہے اور اس انقلاب کے دم پر بے روزگاری کو شکست دے کر نکسل واد جیسے مسائل کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ "

اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہرنمے کی نئی سوچ نے ملک میں کئی نوجوانوں کا نظریہ بدلا ہے۔ ہرنمے کی پہل سے اسٹارٹپ کی دنیا میں نئی سوچ، نئے خیالات کو کافی فروغ بھی ملا ہے۔ ہرنمے نوجوان ہیں، ان کی سوچ اور نظریہ نوجوان ہے اور اسی سے ہندوستان میں ایک نئی تعلیمی اور سماجی انقلاب کا آغاز ہوا ہے۔ جوش و جذبے اور یقین سے بھرے ذہن کے مالک ہرنمے نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا خواب اور مقصد بھی ہمارے ساتھ اشتراک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ ہرنمے نے کہا، "میں 10 لاکھ کاروباری بنانا چاہتا ہوں، ایسےتاجر جو جاب كرئیٹرس ہوں۔ جب میں مجھ سے بہتر بہت سارے کاروباری بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گا تو میری روح کو بہت خوشی ملے گی۔ "

نوجوان کاروباری ہرنمے ویویکانند اور ڈاکٹر عبدالکلام کے خیالات سے بھی بہت متاثر ہیں۔ گجرات ٹیكنولجكل یونیورسٹی کیمپس میں ہوئی بات چیت کے دوران ہرنمے نے کئی بار کہا کہ انہیں عبد کلام نے کافی حوصلہ افزائی کی ہے اور انہی کے خیالات سے متاثر ہو کر اپنے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ 'ٹیكپيڈيا' اور اپنی کامیابی کا کریڈٹ ڈاکٹر عبدالکلام اور پروفیسر انیل گپتا کو دینے میں وہ کوئی کوتاہی نہیں برتتے ہیں۔